عنبر مچھلی
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح حدیبیہ سے قبل تین سو افراد پر مشتمل ایک لشکر سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں قریش کے ایک قافلے کے تعاقب کے لیے روانہ فرمایا۔ زادِ راہ کے طور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان مجاہدین کو کھجوروں کا ایک تھیلہ عنایت فرمایا، انہی کھجوروں پر ہی گزر بسر کرنا تھا اس کے علاوہ کھانے لیے کوئی چیز مہیا نہیں تھی۔
راوی حدیث سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے شاگردوں نے پوچھا حضرت! آپ گزارہ کیسے کرتے تھے؟ فرمانے لگے امیر لشکر سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں روزانہ ایک ایک کھجور دیتے تھے، ہم اس کو ایسے چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے، پھر ہم اس پر پانی پی لیتے، اور یہ ایک کھجور اور پانی ہمیں ایک رات اور دن (چوبیس گھنٹے) کے لیے کافی ہوجاتا۔
جب کھجوریں ختم ہوگئیں تو صحابہؓ کرام اپنے اونٹ ذبح کر کے کھانے لگے، لیکن جلد ہی حضرت امیر نے سواریوں کو ذبح کرنے سے اس وجہ سے منع فرما دیا کہ اگر یہ بھی نہ رہیں تو واپسی مشکل ہوجائے گی۔ فقر وفاقہ میں مبتلا یہ قافلہ عزم وہمت اور استقلال کا پہاڑ بنا اپنی منزل کی طرف رواں تھا کہ بھوک کی شدت ستانے لگی۔ اسلام کے یہ سچے پہرے دار درختوں کے پتے توڑ کر اپنا گزر بسر کرنے لگے۔
سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ساحلِ سمندر جارہے تھے کہ اچانک ہم نے دیکھا کہ ہمارے سامنے ریت کے ایک ٹیلے کی طرح کوئی چیز بلند ہوئی، ہم قریب پہنچے تو دیکھا ایک بڑا سمندری جانور ہے جسے ”عنبر“ کہتے ہیں۔ (یہ عنبر نامی مچھلی اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کرام کے لیے سمندر سے باہر پھینکی تھی) صحابہؓ کرام نے اسے اللہ تعالیٰ کی نصرت سمجھتے ہوئے اس سے کھانا شروع کر دیا۔
حضرت جابر فرماتے ہیں ہم تین سو افراد تقریباً ایک مہینہ تک اس مچھلی سے کھاتے رہے۔ یہاں کہ ہم پہلے کی طرح تر و تازہ اور فربہ ہوگئے۔ ہمارا حال یہ تھا کہ ہم اس مچھلی کی آنکھ کے گھڑے سے تیل کے گھڑے کے گھڑے نکالتے اور سمندری خشکی سے بچنے کے لیے اپنی بدن پر لگاتے۔ اور ہم اس سے بیل کی بقدر گوشت کے ٹکڑے کاٹتے اور کھاتے۔
امیر لشکر نے ہم میں سے چند آدمیوں کو بلایا اور ان کو اس کی آنکھ کے گھڑے میں بیٹھنے کا حکم فرمایا، دیکھتے ہی دیکھتے تیرہ آدمی اس کی آنکھ کے گھڑے میں سما گئے۔ پھر اس کی پسلی ایک ہڈی کو کھڑا کرکے ہمارے پاس موجود اونٹوں میں سے سب سے اونچا اونٹ لیا اور اس پر کجاوہ رکھ کر اس کے نیچے سے گزارہ تو وہ آسانی سے گزر گیا۔
ایک ماہ کھانے کے بعد جب ہم واپس ہونے لگے تو ہم نے اس کے گوشت کے ٹکڑے اپنے ساتھ زادِ راہ کے طور پر رکھ لیے۔ جب ہم مدینہ منورہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو ہم نے اس عنبر کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے نکالا تھا، کیا تمہارے پاس اس کے گوشت کا کوئی حصہ ہے؟ اگر ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ، چنانچہ ہم نے ایک حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا آپ نے اس سے تناول فرمایا سبحان اللہ۔ (صحیح مسلم)