حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام واقعہ
عبدالرؤف چوہدری
سیدنا خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں۔ چوتھے یا پانچویں نمبر پر مسلمان ہوئے۔ انہوں نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا جو ان کے اسلام قبول کرنے کا سبب بنا۔
خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت گہری آگ کی خندق ہے، اور میں اس کے کنارے پر کھڑا ہوں، میرا باپ سعید مجھے اس آگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور مجھے کمر سے پکڑ کر کھینچ لیا۔ خواب سے بیدار ہوئے تو قسم کھا کر کہا ”اللہ کی قسم یہ خواب حق ہے۔“
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے خواب سن کر فرمایا ”اللہ نے تیرے ساتھ کچھ خیر کا ارادہ کیا ہے، یہ اللہ کے رسول ہیں ان کی اتباع کرو اور اسلام قبول کر لو، ان شاءالله آپ اسلام کو قبول کرو گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرو گے، اور اسلام ہی تمہیں آگ سے بچائے گا لیکن تیرا باپ آگ میں گرتا نظر آرہا ہے۔ فرماتے ہیں پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ہمیں کس چیز کی طرف بلاتے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تجھے اللہ کی طرف بلاتا ہوں جو ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور اس کی بات کی دعوت دیتا ہوں کہ بتوں کی پوجا چھوڑ دو کہ جو نفع اور نقصان کسی کے بھی مالک نہیں ہیں، اور نہ ان کو یہ علم ہوتا ہے کہ کسی نے ان کی پوجا کی ہے یا نہیں۔
حضرت خالد کہتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے رسول برحق ہیں، اور اسلام میں داخل ہوگیا۔ میرے باپ کو جب میرے مسلمان ہونے کا علم ہوا تو مجھے اس قدر مارا کہ سر زخمی ہوگیا اور ایک لکڑی کو میرے سر پر توڑ ڈالا، اور پھر کہنے لگے تو نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اتباع کیا جس نے ساری قوم کے خلاف کیا اور ہمارے معبودوں کو برا اور ہمارے آباؤ اجداد کو بے وقوف اور جاہل بتلاتا ہے۔ باپ کی بات سن کر میں نے کہا اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل سچ فرماتے ہیں۔ میری بات سن کر میرے باپ کو اور بھی غصہ آگیا اور مجھے سخت سست کیا، گالیاں دیں اور کہا میرے سامنے سے دور ہوجا، واللہ میں تیرا کھانا پینا بند کر دوں گا۔ حضرت خالد نے جواب دیا اگر تم کھانا بند کر دو گے تو اللہ تعالیٰ مجھے رزق عطا فرمائیں گے۔ اس پر باپ نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا اور اپنے بیٹوں سے کہا کہ کوئی اس سے کلام نہ کرے، جو اس کے ساتھ کلام کرے گا اس کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جائے گا۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے در دولت پر آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کا بہت زیادہ اکرام فرمایا کرتے تھے۔ انسان کسی کا در چھوڑ کر ذلیل اور رسوا نہیں ہوتا مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا در چھوڑ کر دنیا میں کہیں عزت نہیں پاسکتا۔ حضرت خالد کہتے ہیں میرا باپ ایک دفعہ بیمار ہوا تو اس نے یہ کہا کہ اگر اللہ نے مجھے اس بیماری سے شفاء دے دی تو میں اس خدا کی کبھی عبادت نہیں ہونے دوں گا جس کی عبادت کا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) حکم کرتے ہیں۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ ”اے اللہ میرے باپ کو اس مرض سے اٹھنے کے قابل کبھی نہ بنانا، چنانچہ اسی مرض میں وہ مر گیا۔“
قارئین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ عنہ سے صرف توحید و رسالت کا اقرار ہی نہیں لیا بلکہ توحید و رسالت کے اقرار کے ساتھ کفر وشرک سے علیحدگی کا بھی حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا جس طرح ایمان میں داخل ہونے کے لیے توحید و رسالت کی گواہی ضروری ہے اسی طرح کفر و شرک سے برات اور بیزاری بھی ضروری ہے۔