یارسول اللہ! تندرست آنکھ سے کھا رہا ہوں

سیدنا صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار سابقین فی الاسلام میں ہوتا ہے۔ علامہ واقدی فرماتے کہ تیس یا اس سے کچھ اوپر افراد حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے جب حضرت صہیب کے دل میں اسلام کی کرنیں داخل ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سیدنا ارقم کے گھر یعنی ”درِ ارقم“ میں تشریف فرما تھے جب حضرت صہیب اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایک ساتھ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام کے زیر نگیں آگئے۔

کہا جاتا ہے کہ سابقین فی الاسلام میں سات افراد ایسے تھے جنہوں نے اپنے اسلام کا اعلانیہ اظہار کیا، ان میں ایک سیدنا صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ مکہ کی عوامی فضا اسلام کے یکسر خلاف تھی، قوت کے نشے دھت کفار ان مٹھی بھر مسلمانوں کو ختم کر نے کے نت نئے منصوبے بناتے اور ان منصوبے کی تکمیل کے لیے ان نہتے مسلمانوں پر ظلم تشدد کا بازار گرم کیے رکھتے۔ یہ سب کچھ سیدنا صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی برداشت کرنا پڑا۔

کفار کے مظالم جب حد سے بڑھ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باذن ربی ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نے بھی کفار کی ایذاء رسانی سے تنگ آکر وطن اصلی کو الوداع کہنے کی ٹھان لی۔ جب آپ اپنا سامانِ سفر باندھ کر روانہ ہوئے تو کفار نے پھر پیچھا کیا، کیونکہ ان ظالموں کی کوشش ہوتی تھی کہ اول تو کوئی یہاں سے جائے ہی نہ اور اگر جانے لگے تو اس کو ہجرت بھی سکون سے نہ کرنے دی جائے۔

سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ یہ لوگ میرے تعاقب میں پیچھے آرہے ہیں تو ان سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے: تم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ تیر انداز ہوں، جب تک میرے ترکش میں ایک بھی تیر موجود ہے میں تم میں کسی ایک کو بھی اپنے قریب نہیں آنے دوں گا، اور جب تیر ختم ہوجائیں گے پھر میں اپنی تلوار سے تمہارا مقابلہ کروں گا، اور جب تلوار بھی ٹوٹ جائے پھر تم جو چاہو کرنا۔ اتنا کہہ کر فرمانے لگے اگر تم چاہو تو مکہ میں اپنا مال بتا دیتا ہوں وہ لے لو اور مجھے جانے دو۔ تعاقب کرنے والے مال لینے پر راضی ہوگئے یوں سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نے اپنا مال دے کر اپنی جان چھڑا لی تو اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ سودا اتنا پسند آیا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 207 نازل فرما دی، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: ”بعض لوگ وہ ہیں جو اپنی جان اللہ کی رضا مندی کے لیے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ بندوں پر بڑا مہربان ہے۔“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی قبا میں ہی تشریف فرما تھے جب حضرت صہیب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھ کر ارشاد فرمایا اچھا سودہ کیا ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کجھور تناول فرما رہے تھے اور سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں تکلیف تھی۔ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہ مذاق فرمایا: ”آنکھ دکھتی ہے اور کھھوریں کھا تے ہو، تو حضرت صہیب عرض کرنے لگے یارسول اللہ جو آنکھ تندرست ہے اس سے کھا رہا ہوں۔ سبحان اللہ۔“

سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نسلاً عربی تھے۔ ان کو رومی کہنے کی وجہ یہ تھی کہ اہل روم ان کو بچپن میں قید کر کے لے گئے تھے انہوں نے روم میں ہی نشو ونما پائی اور وہیں پلے بڑے جس کی وجہ سے ان کی زبان پر عجمیت غالب تھے۔ پھر رومیوں سے قبیلہ کلب کے لوگوں نے خرید لیا اور مکہ لے آئے، ان سے ان کے قبیلے کے فرد عبداللہ بن جدعان تیمی نے خرید کر آپ رضی اللہ عنہ کو آزاد کر دیا اور یہ اسی کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ سیدنا صہیب کی بیوی، اور ان کے بیٹے جب بڑے ہوئے اور شعور آیا تو یہ بھی روم سے بھاگ کر مکہ مکرمہ آگئے اور انہوں نے ابن جدعان سے حلف کی دوستی کر لی اور اس کے انتقال تک اسی کے ساتھ رہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ فرمانے لگے صہیب! تین باتیں تم میں دیکھتا ہوں اگر وہ نہ ہوتیں تو میں تم پر کسی کو فضیلت نہ دیتا۔ (1) میں دیکھتا ہوں کہ اپنے کو عرب کی طرف منسوب کرتے ہو حالانکہ کہ تمہاری زبان عجمی ہے۔ (2) تم اپنی کنیت ”ابویحیٰ“ بتاتے ہو جو ایک نبی کا نام تھا۔ (3) اور تم اپنا مال فضول خرچ کرتے ہو۔

سیدنا صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ: میں عرب کے قبیلہ نمر بن قاسطہ سے ہوں، بچپن میں رومی مجھے پکڑ کر لے گئے تھے تو میں نے ان کی زبان سیکھ لی حقیقت میں میں عربی ہی ہوں۔
میری کنیت ابو یحییٰ خود رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی تھی اس لیے اس کو کبھی ترک نہیں کرون گا۔
میں مال کو بیجا صرف نہیں کرتا اللہ کے راستے میں ہی خرچ کرتا ہوں۔

سیدنا عمرؓ، سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے بہت پیار کرتے تھے حتی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب زخمی ہوگئے تو حضرت صہیب کو ہی جنازہ پڑھانے کی وصیت کی۔ سیدنا صہیب بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تہتر سال کی عمر میں 38 یا 39 ہجری میں مدینہ منورہ میں انتقال فرمایا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This field is required.

This field is required.