لختِ جگر رسول سیدہ رقیہ بنت محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہا
عبدالرؤف چوہدری
مرکزی ناظم عمومی MSO پاکستان

سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری اور حقیقی بیٹی ہیں جو سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے پیدا ہوئیں۔ سیدہ رقیہ نے بھی اپنی بقیہ بہنوں کے ساتھ اپنے والد گرامی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیر نگرانی تربیت پائی اور سن شعور کو پہنچیں۔ ان کے والدین شریفین کی تربیت وہ اکسیرِ اعظم تھی جو ان کی آنے والی زندگی کے عمدہ کمالات کا باعث بنی۔

خواتین اسلام میں سب سے پہلے اسلام لانے والی اور خاتون اول، سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں، ان کے ساتھ آپ کی صاحب زادیاں بھی ایمان لانے، پیغمبر اسلام اور اپنے بابا کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں پیش پیش رہیں۔ صاحب طبقات ابن سعد رقم طراز ہیں کہ ”جب حضرت خدیجہ ایمان لائیں تو حضرت رقیہ نے بھی اسلام قبول کیا اور جب دوسری عورتوں نے بیعت کی تو حضرت رقیہ اور ان کی بہنوں نے بھی بیعت کی سعادت حاصل کی۔

اسلام سے قبل رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستور زمانہ کے مطابق اپنی دو صاحب زادیوں (حضرت رقیہ وام کلثوم) کا اپنے چچا ابولہب کے بیٹوں سے انتساب نکاح کر دیا تھا۔ اور دیگر رسومات ادا نہیں کی گئی تھیں۔ اسلام کا دور شروع ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا، وحی کا سلسلہ شروع ہوا اور ابولہب کی مذمت کی گئی تو ابولہب نے اپنے بیٹوں کو کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوا دی۔ اہلسنت کی کتب سے تو یہ ثابت ہے ہی لیکن اہل تشیع علماء نے بھی اس بات کو قبول کیا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت رقیہ کو عتبہ بن ابی لہب نے نکاح میں لیا اور پھر اس نے شادی ہونے سے قبل ہی رقیہ کو طلاق دے دی۔ اس وجہ سے رقیہ کو عتبہ سے شدید تکلیف پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عتبہ کے لیے بدعا فرمائی، اے اللہ اپنے درندوں میں سے ایک درندہ عتبہ پر مسلط فرما دے، چنانچہ دعا قبول ہوئی اور عتبہ شیر کا لقمہ بن گیا (انوار نعمانیہ نعت اللہ الجزائری)

ہمشیرگان کو ابولہب کے لڑکوں کے طلاق دینے کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق یہ نکاح حکم خداوندی پر ہوا۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حق میں فرماتے ہیں کہ نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو ایک صاحبزادی نکاح کر کے دی، پھر اپنی دوسری صاحب زادی ان کے نکاح میں دے دی۔ (کنز العمال)

اللہ تعالیٰ نے سیدہ رقیہ بنت محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حسن وجمال کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ سیدہ کا نکاح جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا تو اس دور کی قریش کی عورتیں ان پر رشک کیا کرتی تھیں، اور دونوں کے حسن وجمال کو ان الفاظ سے تعبیر کیا کرتی تھیں۔ ”انسان نے جو حسین ترین جوڑا دیکھا ہے وہ رقیہ اور ان کے خاوند عثمان ہے“۔ (ذخائر العقبی)

یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا، مسلمانوں پر ہر طرح سے دباؤ ڈالے جارہے تھے اور ظلم وتشدد کی حد پار کی جارہی تھی، تو ان دنوں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو آموز مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا مشورہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشورہ سے جن صحابہؓ کرام نے حبشہ ہجرت کی ان نفوس قدسیہ کے ساتھ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ہمراہ تھے۔ اسی موقع پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: ”عثمان وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے لوط علیہ السلام کے بعد اپنے اہل عیال کے ساتھ ہجرت کی“۔ (البدایہ)

ہجرت کرنے کے بعد ایک عرصہ تک ان ہجرت کرنے والوں کے احوال معلوم نہ ہوسکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر سخت پریشان تھے۔ اسی دوران قریش کی ایک عورت حبشہ سے واپس آئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت سے مہاجرین کے حالات معلوم کیے تو وہ کہنے لگی اے محمد! آپ کی بیٹی اور داماد کو میں نے دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کس حالت میں ہیں؟ کہنے لگی آپ کے داماد عثمان اپنی زوجہ کو سواری پر بٹھائے لے جارہے تھے اور خود پیچھے سے سواری کو ہانک رہے تھے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعائیہ جملہ فرمایا کہ: ”اللہ تعالیٰ ان دونوں کا مصاحب اور ساتھی ہو۔“ (البدایہ)

حبشہ سے مکہ واپسی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ مدینہ ہجرت فرما چکے تھے تو دوسری مرتبہ اس معزز جوڑے نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اسی لیے ”ذوالہجرتین“ کے لقب سے ملّقب ہوئے۔

سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے دو بچوں نے جنم لیا۔ پہلا بچہ حبشہ میں پیدا ہوا جو ناتمام تھا۔ وہیں پر دوسرے بچے نے جنم لیا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کنیت اسی نام سے ”ابو عبداللہ“ مشہور ہوئی۔ اہل سیر لکھتے ہیں حضرت عبداللہ تقریباً چھ برس کی عمر کو پہنچے تو ایک مرغ نے ان کی آنکھ میں ٹھونگ لگا کر ذخمی کر دی۔ جس کی وجہ سے ان کا چہرہ متاثر ہوگیا تھا پھر ٹھیک نہ ہوسکا اسی حالت میں اپنی والدہ محترمہ کے بعد چار ہجری مدینہ منورہ میں انتقال کر گئے۔

اہل سیر لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے انتقال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ رنجیدہ ہوئے اور اس پریشانی کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کو اٹھا کر گود میں لیا اور آپ کی انکھیں اشکبار ہوگئیں اور فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ اپنے رحیم وشفیق بندوں پر رحم فرماتا ہے۔ نماز جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود پڑھائی اور حضرت عثمان قبر میں اترے اور انہیں دفن کر دیا۔ (انساب الاشراف)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک باندی تھی جسے ”ام عیاش“ کہا جاتا تھا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کراتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام عیاش کو اپنی لخت جگر سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرما دیا تھا تاکہ خانگی کام کاج میں ہاتھ بٹاتی رہیں اور ام عیاش سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں ہی رہتی تھیں۔ (اسد الغابہ)

سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کا ایک پیالہ مجھے عطا فرمایا اور حکم فرمایا کہ عثمان کے گھر پہنچا دیں، کہتے ہیں میں ہدیہ لے کر حضرت عثمان کے گھر گیا تو وہاں حضرت عثمان اور ان کی اہلیہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہما دونوں موجود تھے۔ میں. نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہدیہ پیش کر دیا۔ حضرت اسامہ کہتے ہیں میں نے اس سے پہلے ایسا ”عمدہ جوڑا“ نہیں دیکھا تھا۔ میاں بیوی دونوں ہی حسن وجمال میں بڑے فائق تھے۔ (البغوی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی اور داماد کی خیر و خبر لینے کے لیے ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو سیدہ رقیہ اپنے خاوند حضرت عثمان کا سر دھو رہیں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا بیٹی اپنے خاوند کے ساتھ اچھا سلوک رکھا کریں۔ عثمان میرے اصحاب میں اخلاق میں میرے سب سے زیادہ مشابہ ہیں۔

مدینہ منورہ میں اقامت کے دوران غزوہ بدر کا معرکہ پیش آیا۔ مسلمان تیاری میں لگے ہوئے تھے کہ آپ کی لخت جگر سیدہ رقیہ اچانک بیمار پڑ گئیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ سیدہ ”خسرہ“ کی بیماری میں مبتلا ہوگئیں۔ اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رقیہ بیمار ہیں آپ ان کی تیمار داری کے لیے یہیں مدینہ میں مقیم رہیں۔ حضرت عثمان کی خواہش شرکت کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے عثمان! آپ کے لیے بدر میں شریک ہونے والوں کے برابر اجر ہے غنیمت میں حصہ بھی ہے۔“ (بخاری)

عین جنگ بدر کے موقع پر یہ غم ناک واقعہ پیش آیا کہ سرکار دوجہاں کی لختِ جگر اس دار فانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کر گئیں (انا للہ وانا الیہ راجعون)

حدیث اور سیرت کی کتابیں بیان کرتی ہیں کہ غزوہ بدر کی خوشخبری لے کر حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو حضرت سیدتنا رقیہ رضی اللہ عنہا کو دفن کرنے والے حضرات اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہے تھے۔

چند ایام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ پہنچے تو سیدھے جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اور مدینہ منورہ کی عورتیں بھی جمع ہوگئیں اور سیدہ رقیہ پر رونے لگیں۔ جب عورتوں کا رونا زیادہ بلند ہوا تو حضرت عمرؓ نے ان کو منع کیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو سختی کرنے سے روکتے ہوئے عورتوں سے ارشاد فرمایا ”شیطانی آواز کرنے سے باز رہو، جب تک دل اور آنکھ سے رونا ہو یہ شفقت اور رحمت ہے لیکن جب زبان سے واویلا ہونے لگے تو یہ شیطانی عمل ہے۔“

معزز قارئین زرا تصور کیجیے آقا نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس قدر کُرب میں ہوں گے کہ عدم موجودگی میں بیٹی کا انتقال ہوگیا لیکن پھر بھی نصیحت کر رہے ہیں۔

اس موقع ہرسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ اپنی پیاری بہن کے غم میں قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک اور کپڑے سے حضرت فاطمہؓ کے آنسو صاف کیے اور انہیں صبر وسکون کی تلقین فرمائی۔ (ابو داؤد)

رضی اللہ عنہا۔ ثقی اللہ ثراہا وجعل الجنۃ مثواہا آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This field is required.

This field is required.