فضائے بدر پیدا کر
توصیف خالد کبیروالا
روز ازل سے ہی حق و باطل کے مابین کشمکش ہوتی رہی ہے، فریقین میں فتح و شکست کا باہمی تبادلہ ہوتا رہتا ہے، تاکہ مخلصین کو ہر پہلو سے ابتلاء و امتحان کی بھٹی سے گزار کر تزکیہ و تطہیر کا معیار قرار دیا جائے۔ہجرت نبوی کے دوسرے سال وہ واقعہ پیش آیا جس نے امت ِ اسلامیہ کے مقدر کا فیصلہ کردیا،بعد میں جتنی بھی فتوحات اور کامیابیوں کے مواقع میسر آئے وہ سب اسی غزوہِ بدر کی رہین منت ہیں۔یہی وہ غزوہ تھا جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جمع پونجی بارگاہِ خداوندی میں پیش کرڈالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی عاجزی وانکساری، خوف و رجاء کی کیفیت میں اپنے کریم رب سے مٹھی بھر جماعت کی سفارش ان الفاظ میں کرتے ہیں: ”اللہم ان تھلک ھذہ العصابہ لا تعبد بعدھا فی الارض“ اے اللہ! اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر اس کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی باقی نہیں رہے گا۔ (سیرت المصطفی)
تجارتی قافلہ پر پیش قدمی کرنے کی غرض سے نکلنے والی بے سروسامان جماعت کو جب علم ہوا کہ ان کے مقابلے کے لیے باطل اپنی پوری جمعیت و طاقت لے کر آچکا ہے،مکہ کی سرزمین نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو نکال کر رکھ دیا، تو مخلصین کی زبانوں پر کلمہ تشکر آجاتا ہے، اور ان کا ایمان مزید بڑھ جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جانثار و وفادار جماعت پر نگاہ ڈالتے ہیں اور مشورہ طلب کرتے ہیں،وہ لوگ جو پہلے ہی اسیرِ محبت تھے، عشق کی بازی میں اپنا سب کچھ لٹا کر آئے تھے، بیک زبان اطاعت پر کمربستہ ہوتے ہیں اور وفاداری کا مکرر یوں اعلان کرتے ہیں: ”نقاتل عن یمینک و عن شمالک و بین یدیک و خلفک“ ہم آپ کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے سے لڑیں گیں۔ (سیرت المصطفیٰ)
محبت و اطاعت میں ڈوبے الفاظ سن کر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ فرطِ مسرت سے چمک اٹھا۔نبی الرحمہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر لوگوں سے تیسری مرتبہ مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ: ” اشیروا علی ایھا الناس” اب انصار کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ آقا ﷺکے اس بلیغ اشارہ کو سمجھتے ہوئے تاریخی الفاظ کہتے ہیں: ”اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، گویا کہ ہم نے اپنی جانوں کو آپ کی محبت میں بیچ ڈالا، اگر آپ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے،ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ ہم سے آپ کو وہ چیز دکھائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی،اللہ کے نام پر ہم کو لے کر چلئے۔“
زمین پر جانثاری و وفاداری کی داستانیں رقم ہوتی ہیں، تو آسمانوں پر فرشتے رشک کرتے ہوئے، زرد عمامہ باندھے باذن اللہ اترتے ہیں اور محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے محبوب ساتھیوں کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں، جن کو قتال کا طریقہ خود رب العالمین نے سکھایا: ”فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منھم کل بنان“مارو ان کی گردنوں کے اوپر اور کاٹ دو ان کے ہر پور کو۔
جنگ کا آغاز ہوتا ہے، عشق و محبت کی محیر العقول داستانیں رقم ہوتی ہیں، جو قیامت تک کے لیے محفوظ ہو کر مشعل راہ بن جاتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھیوں کو جہاد و قتال کی ترغیب دیتے ہوئے جنت کا شوق دلاتے ہیں، یہ مبارک الفاظ عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ کے کان میں پڑتے ہیں جو کھجور کھانے میں مشغول ہیں، فوراً کھجوریں پھینک کر تلوار سنبھالی اور اس جنت کی طرف دوڑ پڑے جس کی وسعت آسمانوں اور زمینوں سے زیادہ ہے۔ بڑوں کے جوش و جذبہ کو دیکھ کر بھلا نوجوان کہاں پیچھے رہ سکتے تھے؟ معاذ اور معوذ میدان میں آتے ہیں اور اپنے اصل ہدف ابوجہل کو تلاش کرتے ہیں اور شکرے اور باز کی طرح جھپٹ کر اس امت کے فرعون کو جھنم واصل کردیتے ہیں۔
نظریات کی جنگ جب لڑی جاتی ہے، تو ایک ہی وحدت ہوتی ہے جو خون کے مقابلہ میں خون کو کھڑا کرتی ہے، دینی حمیت و غیرت کا عملی مظاہرہ ایسے ہی ہوا کرتا ہے، کہ تمام تعلقات اور رشتوں پر وحدت اسلامی کا پلڑا بھاری رہے۔
قیدیوں کو جب لایا گیا تو مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے سگے بھائی ابو عزیر بن عمیر بن ہاشم بھی تھے،ایک انصاری صحابی مشکیں کَس رہے ہیں، اور مصعب بھائی کے پاس سے گزرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ذرا کس کے مشکیں باندھنا اس کی ماں بڑی مالدار ہے، فدیہ کی رقم اچھی آنے کی امید ہے۔یہ باتیں جب ابو عزیر نے سنی تو تعجب سے بھائی سے مخاطب ہوکر کہنے لگا؛ کہ بھائی ہوکر یہ صلاح دے رہے ہو۔مصعب بن عمیر نے اخوتِ اسلامی کا حقیقی ثبوت دیتے ہوئے کہا؛ کہ اب میرا بھائی یہ انصاری صحابی ہے جو تمہاری مشکیں کس رہا ہے۔ (نبی رحمت)
بالآخر لڑائی کا اختتام فتح مبین پر ہوا، قریش کے ستر آدمی قتل ہوئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے، مُردوں کو ایک بدبودار کنویں میں پھینک کر نشان عبرت بنادیا گیا۔اہل ایمان مظفر و منصور ہو کر واپس لوٹے۔ اور احسان و ایمان کے ساتھ اتباع کرنے والوں کے نام یہ پیغام چھوڑا؛
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
#MSOpak
Related Post
ایم ایس او کیا ہے اور کیا چاہتی ہے؟تحریر: عبدالرؤف چوہدری
Jan 27, 2025
0 Comments
لختِ جگر رسول سیدہ رقیہ بنت محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہاعبدالرؤف چوہدری
Apr 10, 2025
0 Comments