سیدنا طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ
مکی زندگی میں کفار مکہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کو روکنے کے لیے مختلف طریقے آزمائے، جن کا آغاز ”کوہِ صفا“ سے ہوا اور ان کا اختتام شبِ ہجرت قاصدِ رب لم یزل کو شہید کرنے کی سازش سے ہوا۔ ان جملہ طُرق میں سے ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ جب وہ تمام سازشوں میں ناکام ہوگئے تو پھر آپس کی مشاورت سے یہ طے پایا کہ مکہ مکرمہ میں آنے والے لوگوں کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دور رکھا جائے۔ چنانچہ اطراف مکہ سے یا کہیں سے بھی کوئی آدمی مکہ آتا تو اس کو خبردار اور متوجہ کیا جاتا۔
انہیں ایام میں طفیل بن عمرو دوسی مکہ مکرمہ آئے۔ طفیل بن عمرو قبیلہ دوس کے باشندے اور اپنی قوم کے سردار ہونے کے ساتھ ساتھ شریف النسب، چوٹی کے شاعر، انتہائی زیرک وفہیم اور مہمان نواز تھے۔ آپ کے قریش کے ساتھ حلیفانہ تعلقات تھے۔ جب آپ مکہ میں داخل ہوئے تو قریش کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم میں ایک شخص ظاہر ہوا ہے، جس نے قوم میں تفرقہ ڈال دیا ہے، اس کا کلام سحر اور جادو سے کہیں بڑھ کر ہے کہ باپ بیٹا، بھائی بھائی، میاں بیوی میں جدائی ڈال دیتا ہے۔ جو اس کا کلام ایک دفعہ سن لے پھر اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ آپ اس سے بچتے رہیں، ہمیں اندیشہ ہے کہ آپ اور آپ کی قوم کہیں اس مصیبت میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
حضرت طفیل فرماتے ہیں کہ مجھے اس قدر ڈرایا گیا کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تاکہ کہیں غلطی سے بھی اس کا کلام میرے کان میں نہ پڑ جائے۔ ایک دن اچانک میں مسجد حرام کی طرف گیا، دیکھتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت اللہ کے سامنے کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں ان کے پاس جا کر رک گیا۔ باوجود اس کے کہ میں ان کا کلام نہیں سننا چاہتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ مجھے ان کا کلام سنانا چاہتے تھے۔ چنانچہ بلا اختیار میں نے یہ کلام سن لیا تو میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک عقل مند اور شاعر آدمی ہوں۔ مجھے اچھے برے کلام کی تمیز ہے تو سننے میں کیا مضائقہ ہے؟ اگر اچھا اور بھلا معلوم ہوا تو قبول کر لوں گا اور اگر قبیح اور نازیبا ہوا تو چھوڑ دوں گا۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوکر دولت کدہ کی طرف تشریف لے گئے تو میں بھی پیچھے ہولیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت کدہ پر پہنچ کر میں نے سارا واقعہ بیان کیا اور قریش کی طرف سے ڈرائے جانے کا بھی بتایا کہ مجھے اس قدر ڈرایا گیا کہ میں نے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ میں آپ کا کلام نہ سن سکوں مگر مشیت الٰہی مجھے یہ کلام سنانا چاہتی تھی۔ آپ کا کلام کان میں پڑا تو مجھے بھلا معلوم ہوا، آپ اپنا دین مجھ پر پیش کیجیے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین مبین کے متعلق آگاہی دی اور سورہ اخلاص اور معوّذتین کی تلاوت فرمائی۔ خدا کی قسم میں نے قرآن کریم سے بہتر کوئی کلام سنا ہی نہیں اور اسلام سے زیادہ معتدل کسی دین کو نہ پایا اور فوراً مسلمان ہوگیا۔
قبولِ اسلام کے بعد میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی قوم کا سردار ہوں اور ارادہ ہے واپس جاکر اپنی قوم کو اسلام کی تبلیغ کروں، لہذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اللہ تعالیٰ میرے لیے کوئی نشانی پیدا فرما دیں تاکہ قوم کو دعوت دینے میں آسانی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ”اے اللہ! اس کے لیے کوئی نشانہ پیدا فرما دیں۔“ چنانچہ جب میں بستی کے قریب پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے میری دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ کی مانند ایک نور پیدا کردیا۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ”اے اللہ! اس نور کو کسی اور جگہ منتقل کر دیں۔میری قوم کہیں یہ نہ سمجھے کہ آبائی مذہب چھوڑنی کی وجہ سے اس کی صورت بدل گئی ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے وہ نور میری لاٹھی کی نوک میں منتقل کر دیا اور دیکھنے والوں کو وہ نور اس طرح معلوم ہوتا تھا گویا وہ ایک لالٹین لٹکی ہوئی ہے۔ اور میں پہاڑوں کے درمیانی راستے سے ان کی طرف اتر رہا تھا (اسدالغابۃ)
جب میں بستی میں پہنچا تو میرے والد میرے پاس آئے، وہ بہت ہی زیادہ بوڑھے تھے، میں نے ان سے کہا مجھ سے الگ ہی رہنا، نہ میں تمہارا ہوں اور نہ تم میرے ہو۔ میرے والد نے پوچھا اے بیٹے یہ کیوں؟ میں نے کہا میں مسلمان ہوگیا ہوں اور دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار ہوگیا ہوں۔ میرے والد نے کہا اے بیٹے! جو تمہارا دین وہی میرا دین۔ تو میں نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا، انہوں نے بلا تردد قبول کر لیا اور مسلمان ہوگئے۔ اس کے بعد میری بیوی میرے پاس آئی، میں نے اس سے کہا مجھ سے دور رہ، اسلام نے تیرے اور میرے درمیان رکاوٹ ڈال دی ہے، اور میں دینِ محمدی کی پیروی اختیار کر لی، وہ بھی مسلمان ہوگئیں اور مجھ سے کہنے لگی کہ میں تمہارے کہنے پر مسلمان تو ہوگئی لیکن ”ذی الشرٰی“ نامی بت کے ناراض ہونے کا خوف تو نہیں؟ میں نے کہا نہیں میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ (سیرت ابن ہشام ج 1 ص 387)
باپ اور بیوی کے مسلمان ہوجانے کے بعد سیدنا طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے قبیلے کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دی مگر انہوں نے اسلام قبول کرنے میں توقف کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ مکرمہ میں دوباره رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، یانبی اللہ! قبیلہ دوس میرے تبلیغی کام پر غالب آگیا ہے۔ آپ ان کے لیے بددعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی: ”اَللّٰھُمَّ اھْدِ دَوسًا“ ترجمہ: اے اللہ! دوس کو ہدایت دے۔ اور سیدنا طفیل بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ”اپنی قوم کی طرف واپس جاؤ اور انہیں اسلام کی طرف بلاتے رہو اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔“
کہتے ہیں میں پھر اپنے قبیلے واپس چلا گیا اور ایک طویل عرصہ ان کو اسلام کی طرف بلاتا رہا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے، اور غزوہ بدر، احد اور خندق بھی گزر گئے۔ اس کے بعد اپنی قوم کے ان لوگوں کو جنہوں نے میرے ساتھ اسلام قبول کیا تھا لے کر مقام خیبر میں پہنچا۔ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے ساتھ ہمیں بھی مالِ خیبر میں سے حصہ عنایت فرمایا۔ پھر ہم سب خیبر سے مدینہ منورہ پہنچے تو قبیلہ دوس کے ستر یا اسی گھرانے وہی آباد ہوگئے اور میں ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ رہا۔ جب اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ فتح فرمایا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ مجھے عمرو بن حممہ کے ”ذوالکفین“ نامی بت کو جلانے کی اجازت دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت عطا فرما دی۔ حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے اور بت کو جلانے لگے تو ان کی زبان پر یہ شعر جاری تھا
”یَاذَالکَفَینِ لَستُ مِن عِبَادِکَا
مِیلَادُنَا اَقدَامُ مِن مِیلَادِکَا
اِنِّی خَشَوتُ النَّارَ فِی قُرَادِکا“
اے ذوالکفین! میں تیری پوجا کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، ہماری پیدائش تیری پیدائش سے بہت پہلے کی ہے، میں نے تیرے کلیجے میں آگ بھردی ہے۔
بت کو جلانے کے بعد واپس مدینہ منورہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں قیام تک ہمیشہ ساتھ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال پُر ملال کے بعد جب بعض عرب مرتد ہوگئے تو سیدنا طفیل بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر مرتدین سے جہاد کیا یہاں تک کہ مقام طلیحہ اور سرزمین نجد پر فتح حاصل کر لی۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ جنگ یمامہ میں بھی شریک ہوئے ان کا بیٹا عمرو بن طفیل بھی ساتھ تھا۔ جب یمامہ کی جانب لشکر کے ساتھ ہمرکاب تھے تو انہوں نے ایک خواب دیکھا۔ اور اپنے ساتھیوں سے کہا میں نے ایک خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر بتاؤ۔ وہ خواب یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ میرا سر مونڈا گیا ہے اور ایک پرندہ میرے منہ سے نکلا اور مجھے ایک عورت ملی جس نے مجھے اپنی شرمگاہ میں داخل کر لیا اور میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا مجھے بڑی تیزی سے تلاش کر رہا ہے لیکن اس کو مجھ تک آنے سے روک دیا گیا ہے۔ لوگوں نے کہا خواب تو اچھا ہی ہے۔ سیدنا طفیل بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوستوں سے کہا مجھے اس کی یہ تعبیر سمجھ آئی ہے کہ سر مونڈا جانا تو اس کا کٹنا ہے کہ میرا سر کٹ جائے گا، اور منہ سے پرندہ نکلنا روح کے نکلنے کی طرف اشارہ ہے اور عورت کا شرمگاہ میں داخل کرنا زمین میں دفن میں ہونا ہے کہ میرے لیے کھودی جائے گی، اور میرے بیٹے کا مجھے تلاش کرنا اور روک دیا جانا، میں سمجھتا ہوں کچھ آفتوں میں مبتلا ہوگا لیکن جس آفت میں میں ہوں گا وہ اس سے محفوظ رہے گا۔
چنانچہ خواب اور تعبیر بالکل سچ ثابت ہوئے اور سیدنا طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ یمامہ میں شہید ہوگئے اور ان کا بیٹا حضرت عمرو بن طفیل شدید زخمی ہوا اور بعد میں صحت یاب ہوگیا اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں لڑی جانے والی جنگ یرموک میں شہید ہوا۔
سیرت ابن ہشام، اسدالغابہ