سیدنا سعد بن ربیع کا پیغام

احد کا میدان ہے۔ ہر طرف لاشے بکھرے پڑے ہیں۔ زخمی اپنے زخموں کی وجہ سے کراہ رہے ہیں۔ ایک طرف فتح کی خوشی ہے تو دوسری جانب اپنے جانثار ساتھیوں کی شہادت اور زخمیوں کے زخموں سے چور بدن کا غم بھی ہے۔ خود سپہ سالار کا چہرہ اقدس بھی خون کی وجہ سے سرخ گلاب کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جانثاران پیغمبر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد جمع ہیں۔ گویا کہ ایسا ہی منظر ہے جیسے آسمان دنیا پر رات کے اندھیرے میں چاند چمک رہا ہوتا ہے اور جگ مگ تارے اپنے مختلف رنگوں کی روشنیوں سے چاند کی روشنی کو مزید خوب صورت بنا رہے ہوتے ہیں۔ آج کا منظر بھی کچھ ایسا ہی نظارہ پیش کر رہا ہے مگر خوشیوں پر غم کی پرچھائیاں چھائی ہوئی ہیں۔

تمام حب دار آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے اقدس پر نظریں جمائے کھڑے ہیں کہ اب کیا پیغام ملتا ہے۔ مگر میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نظریں کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں اور ایسے ہی مضطر نظر آرہی ہیں جیسے بھرے مجمعے میں کوئی شخص کسی کی کھوج میں ہو اور اس کو تلاش کر رہا ہو۔

جب چاروں طرف نظریں گھمانے کے باوجود بھی مطلوبہ شخص نظر نہ آئے تو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کر ڈالا فلاں انصاری صحابی کہاں ہیں؟؟ کسی سے تسلی بخش جواب نہ ملا تو اپنے ایک جانثار کو تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ ڈھونڈنے والے نے شہداء میں تلاش کیا، نہ ملے۔ پھر زخمیوں میں تلاش کیا مگر وہاں بھی نہ ملے تو نام لے کر پکارا اور کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی تلاش کے لیے بھیجا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کی آواز کانوں میں پڑی تو ایک طرف سے ہلکی سی آواز آئی۔ صحابی رسول وہاں پہنچے تو دیکھا چار شہیدوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور زندگی کے آخری سانس لے رہے ہیں۔

انہوں نے نیچے سے نکالا، تو قاصدِ رسول کو دیکھ کر کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام عرض کر دینا اور کہنا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی آپ کو میری طرف سے اس بھی بہتر بدلہ عطا فرمائے جو کسی نبی کو اس کے کسی امتی کی طرف سے عطا فرمایا ہو۔ اور عرض کر دینا کہ میرے بارہ زخم نیزے کے لگے ہیں اور میں نے اپنا مقابلہ کرنے والوں کو جہنم میں پہنچا دیا ہے۔

اور میری قوم کو میرا پیغام دے دینا کہ: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچی اور تم میں سے کوئی ایک آنکھ بھی باقی رہی تو اللہ کے ہاں تمہارا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔ اور میری قوم کو کہہ دینا اللہ سے ڈرو اور اس عہد کو یاد کرو جو تم نے لیلۃ العقبی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تھا۔ اتنا کہا اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔

عزیز قارئین یہ تھے میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثار انصاری صحابی حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لیے لڑتے رہے، انتہاء سے زیادہ زخمی ہوئے، زندگی کے چند لمحے باقی ہیں، ان میں بھی اپنے علاج کا نہیں سوچا، بیوی بچوں کا نہیں سوچا کہ میرے جانے کے بعد ان کا خیال رکھنا۔ اگر فکر ہے تو صرف آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی۔ اور جاتے جاتے بھی اپنی قوم کو پیغام دے گئے کہ مرتے مر جانا مگر آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی میلی آنکھ کو مت اٹھنے دینا ورنہ تم کبھی سر خرو نہیں ہو سکو گے۔

سیدنا سعد بن ربیع بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے قبل ہی حج کے ایام میں مدینہ منورہ کی، جس پہلی جماعت نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کی تھی حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان میں شریک تھے۔

مہاجرین جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے انصار اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنا دیا تھا۔ اور انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے جس ایثار وہمدردی کا مظاہرہ کیا دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا گیا۔ حضرت سعد نے اپنا سارا مال پیش کر دیا کہ آدھا آدھا بانٹ لیں، حتی کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو بیویاں تھیں ان کو بھی پیش کر دیا کہ ایک سے آپ نکاح کر لیں۔ اللہ اکبر۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کے اہل وعیال اور مال میں برکت ڈالے بس مجھے بازار کی راہ بتا دو۔

سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ڈھونڈنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا تھا۔ حضرت ابی فرماتے ہیں میں سعد سے لوٹ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچا اور سارا ماجرا بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سعد پر رحم کریں انہوں نے زندگی اور موت دونوں میں اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کی۔۔۔۔
اے آر چ۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This field is required.

This field is required.