خاتونِ جنتؓ کی درویشانہ زندگی
✍ سردار مظہر
سابق ناظم اعلیٰ ایم ایس او پاکستان
خاتونِ جنت، سیدۃ نساء الجنۃ، زھرا و بتول، اُم الحسنین حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ، نبی خاتم النبین والمعصومینﷺ کی چاروں صاحب زادیوں میں سب سے چھوٹی، لاڈلی اور چہیتی بیٹی تھیں۔ آپ کی ولادت باسعادت کے بارے میں مؤرخین کا اختلاف ہے البتہ دو قول مشہور ہیں۔ پہلا قول یہ کہ آپ کی ولادت بعثت نبویﷺ سے ایک سال بعد ہوئی جب رسول اللہﷺ کی عمر مبارک اکتالیس سال تھی، اور دوسرا قول یہ ہے کہ آپ کی ولادت بعثت نبوی سے پانچ سال قبل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پنتیس سال تھی۔
آپ کا نام ”فاطمہؓ“ تجویز ہوا، آپ کے بہت سے القاب ہیں ان میں مشہور ”زہرا اور بتول“ ہیں۔ آپ چال ڈھال میں رسول اللہﷺ کے بالکل مشابہ تھیں۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے قیام وقعود، چال ڈھال، نشست وبرخاست کے عادات واطوار میں حضرت فاطمہؓ سے زیادہ رسول اللہﷺکے مشابے کسی کو نہیں دیکھا۔
آپؓ انتہائی صابرہ اور شاکرہ عورت تھیں، کم سے کم پر قناعت کرلینا آپ کی عادت تھی، کئی کئی دن فاقے برداشت کرنا گویا آپ کا معمول بن گیا تھا لیکن کبھی انجانے میں بھی ناشکری اور شکوے کے کلمات نہ خالق کائنات کے سامنے پیش کیے اور نہ ہی کبھی اپنے شوہر سیدنا علی المرتضیٰؓ کے سامنے اظہار کیا۔ جو مل گیا اس کو بخوشی قبول کرلینا آپ کا خاصہ تھا۔
گھر کے کام کاج خود کرنے کا معمول تھا۔ اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں جس کی وجہ سے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے تھے، پانی کی مشک خود بھر کر لاتی تھیں جس کی وجہ سے سینے پر مشک کی رسی کے نشان پڑ گئے تھے، گھر کی صفائی ستھرائی اور جھاڑو خود دیتی تھیں جس کی وجہ سے کپڑے میلے کچیلے رہتے تھے، مینڈھے کی کھال کا ایک ہی بستر تھا رات کو بچھا کر میاں بیوی دونوں سو جاتے اور صبح کو اسی پر گھاس دانہ ڈال کر اونٹ کو کھلاتے تھے۔
سیدنا علی المرتضیٰ ؓ نے جب آپ کی یہ دیکھی تو ترس آیا اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غلام باندیاں آئی ہوئی ہیں ایک تم بھی مانگ لاؤ تاکہ کام کاج میں کچھ آسانی ہوجائے۔ حضرت فاطمہؓ حضورﷺ کی خدمت میں گئیں لیکن وہاں مجمع تھا اور شرم وحیا مزاج میں غالب تھا، اس لیے کوئی سوال نہ کر سکیں اور واپس لوٹ آئیں۔ دوسرے دن آنحضرتﷺ خود تشریف لائے اور آنے کی غرض معلوم کرنا چاہی لیکن فاطمہؓ شرم کی وجہ سے پھر چپ ہوگئیں۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے جب دیکھا کہ فاطمہؓ بتا نہیں پا رہی تو خود گویا ہوئے، یارسول اللہ! ان کی یہ حالت ہے کہ چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے ہیں، پانی کی مشک کی وجہ سے سینے پر نشان پڑ گئے ہیں، گھر کے کام کاج میں مشغولی کی وجہ سے کپڑے میلے کچیلے رہتے ہیں۔ آپ کے پاس کچھ غلام باندیاں آئی تھیں، میں نے ہی ان کو بھیجا تھا کہ ایک تم بھی مانگ لاؤ تاکہ کچھ آسانی ہوجائے، لیکن یہ شرم وحیا کی وجہ سے سوال نہیں کر پائیں اور واپس لوٹ آئیں۔
آپﷺ نے فرمایا بیٹی! صبر کر، تقوی حاصل کر، اللہ سے ڈر، اپنے پروردگار کا فریضہ ادا کرتی رہ اور گھر کے کام کاج کاج کو انجام دیتی رہ اور جب سونے کے لیے لیٹے تو 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمدلله اور 34 بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو یہ خادم سے اچھی چیز ہے۔ حضرت فاطمہؓ نے کہا میں اللّٰہ اور اس کے رسول کی رضا پر راضی ہوں۔
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں نبی اکرمﷺ ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے، اتفاق سے حضرت فاطمہؓ ایک مختصر سا ڈوپٹہ زیب تن کیے ہوئے تھیں، وہ اتنا چھوٹا تھا کہ اگر اس سے سر مُبارک ڈھانپتی تو پاؤں نہیں چھتے تھے اور اگر پاؤں پر ڈالتی تو چہرہ کھل جاتا تھا، یہ حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی حرج نہیں ایک تیرے والد ہیں اور ایک تیرا غلام ہے۔
یہ تھی زندگی دو جہاں کے بادشاہ کی بیٹی کی کہ جن کو جنتی عورتوں کی سردار ہونے کا اعزاز بخشا گیا، جن کے بیٹوں کو جنتی نوجوانوں کا سردار ہونے کا اعزاز ملا۔ اتنے بڑے مقام ومرتبہ کے باوجود عاجزی وانکساری کا عالم آپ اوپر ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ آج ہم سے کسی کے پاس چند پیسے آجائیں تو گھر کا کام کاج تو دور اپنا کام بھی خود کرنے کو عار سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہؓ واہلبیتؓ سے سچی محبت نصیب فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے آمین،
مُسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان اپنی آنے والی نٙسل کے ایمان کا تحفظ چاہتی ہے اور اپنی نوجوان نسل کو صحابہ کرامؓ کی تعلیمات سے جوڑنے کے لیے دن رات محنت کر رہی ہے بالخصوص پاکستانی طلباء سے اور بالعموم پوری دنیا کے مُسلم طلباء سے ایم ایس او پاکستان اپیل کرتی ہیں کہ آپ نے دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونا ہےتو سیرت مُصطفیﷺ اور ان کی تیارکردہ جماعت صحابہ کرامؓ کی سیرت کا مطالعہ کرنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے ،
اس اُمید سے کہ اسلام پسند نوجوان ایم ایس او کا ساتھ دیں گے !
#MSOpak