اسلام کی پہلی شہیدہ
ابتدائی زمانہ میں اسلام قبول کرنے والے خواتین وحضرات کو بہت زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور بہت زیادہ ظلم و تشدد برداشت کرنے پڑے۔
حضرت مجاہد فرماتے ہیں مکہ میں سات افراد تھے جنہوں نے ابتدا میں ہی اپنے اسلام کا اظہار کر دیا تھا۔ ایک خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تھی، ان کے علاوہ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا بلال، سیدنا خباب، سیدنا صہیب، سیدنا عمار اور سیدہ سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم وعنہا۔
اول الذکر دو حضرات اپنے قبیلے کی پشت پناہی کی وجہ سے کافی حد تک محفوظ رہے۔ مگر باقی حضرات کو ایسے ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے آگے انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔ لوہے کی زرہیں گرم کر کے ان کو داغ دیے جاتے۔ تپتی ہوئی گرم ریت پر لٹا دیا جاتا۔
ان افراد میں ایک سیدہ سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ آپ ابتدا میں ابوحذیفہ بن مغیرہ کی باندی تھیں، اور آپ کے شوہر حضرت یاسر نکاح سے پہلے ابو حذیفہ کے حلیف تھے۔ اسی نے سیدہ سمیہ کا نکاح حضرت یاسر سے کیا تھا۔ پھر ان حضرات کے ہاں سیدنا عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی تو ابو حذیفہ نے سیدہ سمیہ کو آزاد کر دیا۔ حضرت یاسر بھی حضرت سمیہ کی طرح سابقین فی الاسلام میں سے تھے، کہا جاتا ہے کہ اسلام قبول کرنے میں ان کا ساتواں نمبر تھا۔
سیدہ سمیہ کو مغیرہ بن عمر بن مخزوم نے اسلام کی وجہ سے سخت عذاب دیے، انہوں نے اسلام کے علاوہ ہر چیز سے انکار کر دیا لیکن اسلام نہ چھوڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب بھی ان لوگوں کے پاس سے گزرتے تو صبر کا حکم فرماتے، اور فرماتے اے آل یاسر! ہمت نہ ہارنا اللہ نے تم سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔
خاندان یاسر نے ہر طرح کا ظلم وجبر برداشت کر لیا لیکن اسلام نہ چھوڑا حتی کہ شہید کر دیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ فرعون وقت ابوجہل نے سیدہ سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شرمگاہ پر نیزہ مارا جس کی وجہ سے وہ شہید ہوگئیں۔ اور اسلام پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والی سب سے پہلی خاتون کا لقب پایا۔ ان کی شہادت ہجرت مدینہ سے قبل ہوئی۔
اے آر، چ